2020-07-29

nade ali ki fazilat urdu

نا ظرین  اس روحانی رسالے میں ہم دعائے نادعلی کے ظہور سے لے کر  ، دعائے نادعلی پڑھنے کا طریقہ اور اس کے فوائد  وفضائل کی  آج تک  کے بزرگوں  کی تحقیق  کی تفصیل آپ پر واضح کرنے کی کوشش کریں  گے  ۔ جو باتیں اس  رسالہ میں درج ہیں اگر ان باتوں کی آپ کو صحیح سمجھ آگئئ  اور آپ نے انہیں اپنا لیا تو سمجھ لیں اسکے بعد آپ   ولائت کے مرتبے  سے صرف چند قدموں کے فاصلے پرہوں گے  ۔
اس رسالے میں ہم نے دعائے نادعلی کے بارئے میں جو باتیں بیان کی ہیں وہ صرف اور صرف   ان نوگوں کے لئے ہیں جنکا اس  حدیث مبارکہ پر ایمان ہے کی علی کا نام لینا عبادت  ہے  ۔
اسکے علاوہ ہم کسی بھی فرد کو مجبور نہیں کر رہے کہ وہ نادعلی  شریف کو دل سے اور محبت سے   پڑھے  ۔

فہرست 

1) ۔دعائے نادعلی کیا ہے   ؟
2) ۔  نادعلی کی سند
3) ۔ دعائےنادعلی کامفہوم 
4) ۔ظہور نادعلی
5) ۔ نبی کا علی سے  مدد  طلب کرنا کیسا ہے  ؟
6) ۔ کیا مولاعلی پکار سنتے ہیں   ؟
7) ۔  خیبر کے مقام پر دعائے نادعلی پڑھنے کے پیچھے  سرکار کی مقصدیت   ؟
8) ۔ جناب علی علیہ سلام کن کی مدد کرتے ہیں   ؟
 9) ۔ جناب علی علیہ سلام مدد کس طرح کرتے ہیں  ؟
10) ۔ اولیاء اللہ نے نادعلی پڑھنے پر زور کیوں دیا   ؟
11)۔ نادعلی کے فائدے
12)۔ نادعلی کی زکات
13 ) نقش نادعلی 

فرمان مولاعلی علیہ سلام

  اگر ساری زمین کو سونے سے بھر کر مجھے دے دیا جائے تو مجھے اتنی خوشی نہ ہو گی  جتنی خوشی مجھے اس وقت ہوتی ہے  جب اللہ کی ذات میرئے  زریعے کسی کی حاجت پوری فرماتے ہیں   ۔
حوالہ : طریہ دمشق  ، حضرت امام عامل شافعی         chack hawala

 حضور نبی اکرم  کا ارشاد ہے کی مومن جناب علی علیہ سلام کا نام سن کر کھل جائے گا اور  مشرک  کا چہرہ جناب علی کا نام سن کر  بگڑ جائے گا ۔    
حوالہ حدیث  :

1)  - دعائے نادعلی کیا ہے   ؟

 نادعلی ایک  الہامی دعا ہے   جسکا ظہور غزوہ خیبر کے  انتالیسویں دن ہوا   ۔ اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے   غزوہ خیبر کی ناکامی کو کامیابی میں صرف چند گھنٹوں میں بدل دیا   ۔
یہ دعا الہامی ہونے کی بنا پر ایک خاص تاثیر رکھتی ہے  
دعائے نادعلی شریف کو  زمانہ قدیم ہی بزرگ   زکر کرتے رہیں  ہیں  اور ان میں سے اکثر بزرگوں نے اس دعا کو اپنے سینے تک محدود رکھا   ۔ ان بزرگوں کا اس دعا کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد یہ تھا  تاکہ  کوئی بھی فرد اس دعا  کی تاثیر کو غلط  مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکے  اور اس بات پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے   ۔
جبکہ نادعلی  ، درود پاک اور قرانی آیات سے آپ کے جائز کام تو ہو سکتے ہیں مگر ایساء ممکن نہیں  اللہ کی کلام سے یا دعا سے آپ اپنے ناجائز  مقاصد کی تکمیل کروائیں  ۔
صرف چند بزرگوں  نے اس دعا کو اپنے سینوں سے نکال کر  عوام کے لئے عام کیا   تاکہ عوام کی مشکلات بھی اللہ کے کرم سے حل ہو سکیں اور  مسلمانوں کو جناب علی علیہ سلام کے رتبے کا بھی اندازہ ہو سکے  ۔
یہ دعا آپ کی ہر مشکل کا حل ، ہر جائز حاجت کی تکمیل ، ہر بیماری سے شفاء   ، دشمن پر فتح   ، رزق میں آضافہ  ، جان ،اولاد ،مال اور گھر  کی زبردست روحانی حفاظت ہے  ۔
جسکی ڈیٹیل آپ کو انشاء اللہ آخر میں دی جائے  گی  ۔

  2) - نادعلی کی سند

شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ نے  ایک کتاب تحریر فرمائی  جسکا نام   انتباہ فی سلاسل اولیا ء  ہے   جن میں آپ نے  فرمایا کہ آپ نے   نادعلی کی سند  دو بزرگوں سے حاصل کی ۔
پہلے بزرگ  ابو طاہر  قردی المدنی ہیں  
اور دوسرئے بزرگ  شیخ محمد سعید شتاری لاہوری  ہیں   ۔
شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ   انتباہ فی سلاسل اولیا ء  کہ وہ  حج کے مدینہ منورہ گئے تو مدینہ میں انکی ملاقات   شیخ الحدیث    ابو طاہر  قردی المدنی  سے ہوئی   جن کے زیر سایہ انہوں نے وقت گزار کر   طریقت اور حدیث کا علم حاصل کیا   اور اسی دوران   ابو طاہر  قردی المدنی شاہ ولی اللہ کو  دعائے نادعلی اور دعائے سیفی پڑھنے کی اجازت بھی عطا ء فرمائی   ۔
حج کے بعد واپسی پر  شاہ ولی اللہ  لاہور پہچے تو لاہور میں انکی ملاقات  شتاریہ سلسلہ کے بزرگ محمد سعید لاہوری سے ہوئی  تو ان بزرگوں سے بھی   شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ  دعائے نادعلی اور دعائے سیفی پڑھنے کی اجازت طلب کی  ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ   شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ  نے دو کامل بزرگوں سے نادعلی کی سند تو حاصل کر لی مگر ان بزرگوں کو نادعلی کہاں سے حاصل ہوئی   ۔
 تو سب سے پہلے ہم شیخ الحدیث   ابو طاہر  قردی المدنی   سے نادعلی کی سند  کا حوالہ دینے کی کوشش کرتے ہیں   ۔


شیخ الحدیث   ابو طاہر  قردی المدنی  دعائے نادعلی   شیخ احمد نخدی سے حاصل کی   شیخ احمد نخدی   رحمتہ اللہ علیہ    نے   شیخ میر قلال    رحمتہ اللہ علیہ   سے  حاصل کی ۔ شیخ میر قلال    رحمتہ اللہ علیہ   نے   شیخ عیسی برہان پوری   رحمتہ اللہ علیہ   سے حاصل کی  شیخ عیسی برہان پوری   رحمتہ اللہ علیہ  نے  شیخ لشکر    رحمتہ اللہ علی   محمد سے   حاصل کی   شیخ لشکر    رحمتہ اللہ علی   محمد   نے   شیخ محمد غوث گوالیاری سے دعائے نادعلی  کی سند حاصل کی  


اسی  طرح شاہ ولی اللہ نے لاہور  میں جن بزرگوں( شیخ محمد سعید شتاری لاہوری   ) سے نادعلی کی اجازت اور سند  حاصل کی ان  کی نسبت بھی  آ جا کر   شیخ محمد غوث گوالیاری رحمۃاللہ سے ہی ملتی  ہے    ۔    یعنی 
 شاہ ولی اللہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے  دعائے نادعلی کی سند   شیخ محمد سعید شتاری لاہوری رحمۃاللہ علیہ   سے حاصل کی  شیخ محمد سعید شتاری لاہوری رحمۃاللہ علیہ   نے  شیخ محمد اشرف لاہوری    رحمۃاللہ علیہ   سےشیخ محمد اشرف لاہوری  رحمۃاللہ علیہ   نے   عبداملک  رحمۃاللہ علیہ   سےعبداملک  رحمۃاللہ علیہ  نے  باجوی ثانی   رحمۃاللہ علیہ   سے باجوی ثانی   رحمۃاللہ علیہ  نے   وجہہ الدین  گجراتی   رحمۃاللہ علیہ   سے وجہہ الدین  گجراتی   رحمۃاللہ علیہ   نے  دعائے نادعلی کی سند  شاہ محمد غوث گوالیاری  سے  دعائے نادعلی کی سند حاصل کی   ۔

شاہ محمد غوث گوالیاری   رحمۃ اللہ   نے   تقریباََ    500   سے  قبل ایک کتاب جواہر خمسہ  کے نام سے تحریر فرمائی تھی  اس کتاب کے  صفحہ    نمبر 371  دعائے نادعلی موجود ہے  ۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  شاہ محمد غوث گوالیاری   رحمۃ اللہ علیہ نے  دعائے نادعلی کہاں سے حاصل کی تھی  ؟ 
تو یہ ڈیٹیل بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں  ۔ یعنی 

 شاہ محمد غوث گوالیاری   رحمۃ اللہ علیہ نے   شیخ محمد ظہور   رحمۃ اللہ علیہ  سے  دعائے نادعلی  حاصل کی  
 شیخ محمد ظہور   رحمۃ اللہ علیہ نے  شیخ ہدیۃ اللہ سرمد   رحمۃاللہ   علیہ سے  
 شیخ ہدیۃ اللہ سرمد   رحمۃاللہ  نے  شیخ محمد قاضی  رحمۃاللہ   علیہ سے
 شیخ محمد قاضی  رحمۃاللہ   علیہ نے  شیخ عبداللہ شتاری رحمۃاللہ   علیہ سے
شیخ عبداللہ شتاری رحمۃاللہ   علیہ  نے  شیخ محمد عارف رحمۃاللہ   علیہ سے  
 شیخ محمد عارف   رحمۃاللہ   علیہ  نے  شیخ محمد  عاشق   رحمۃاللہ   علیہ سے 
 شیخ محمد  عاشق  رحمۃاللہ   علیہ  نے  شیخ ہذاقلی ماوراء ناری  رحمۃاللہ   علیہ سے
شیخ ہذاقلی ماوراء ناری  رحمۃاللہ   علیہ نے ابو الحسن حزقانی     رحمۃاللہ   علیہ سے
 ابو الحسن حزقانی   رحمۃاللہ   علیہ نے   ابوالمظفر ترت طوسی  رحمۃاللہ   علیہ سے
ابوالمظفر ترت طوسی رحمۃاللہ   علیہ نے  شیخ ابویزید عشقی     رحمۃاللہ   علیہ سے
شیخ ابویزید عشقی   رحمۃاللہ   علیہ   نے شیخ محمد مغربی   رحمۃاللہ   علیہ سے
 شیخ محمد مغربی   رحمۃاللہ   علیہ نے بایزید بسطانی   رحمۃاللہ   علیہ سے
بایزید بسطانی   رحمۃاللہ   علیہ  نے سیدنا امام جعفر صادق  علیہ سلام سے 
سیدنا امام جعفر صادق  علیہ سلام  نے  نادعلی اپنے بابا حضرت امام باقر علیہ سلام 
 سے  حضرت سیدنا  امام باقر علیہ سلام نے نادعلی  سیدنا امام زین العابدین سے حاصل فرمائی 
سیدنا امام زین العابدین علیہ سلام  نے  دعائے نادعلی جناب امام حسین کریمین سے
 اور حضرت امام حسین کریمین نے  دعائے نادعلی   اپنے بابا جناب مولا علی علیہ سلام سے سنی   ۔  

یہ دعائے نادعلی کی سند ہے   اہل سنت  کے نزدیک بہت ہی زیادہ معتبر مانی جاتی ہے  ۔
اسی طرح اہل توشعہ کے نزدیک بھی نادعلی کے بارئے میں  مستند روایات موجود ہیں  ۔

3) ۔ دعائےنادعلی کامفہوم

معاشرئے میں بہت سے افراد ایسے بھی ہیں  جو  روز گار کے لئے کسی بھی قسم   کام دھندہ نہیں کرتے   لہذا یہ افراد اپنے فارغ وقت میں بزرگوں ، علماء اکرام ، سیاسی لیڈروں  ، روایات یا سند   میں غلطیاں نکال کر گزارتے ہیں  ۔
ایسے افراد  میں سے اکثر افراد نادعلی کی سند  اور نادعلی کے بارئے میں بزرگوں کے فرمامین کا انکار کر دیتے ہیں  ۔
لہذا اب ہم دعائے نادعلی کا مفہوم  صرف ان افراد کے لئے بیان کر رہیں جو نادعلی  سے محبت کرتے ہیں  یہ اس لئے تاکہ  آپ کے علم و شعور  میں مزید اضافہ ہو   اور آپ کسی بھی   فرد کی جلالی باتیں سن کر گمراہ نہ ہوں  
 وقت کا بادشاہ وہ فرد بھی ہوتا ہے  جس کے پاس وقت ہی  وقت ہوتا ہے  یعنی وہ  روزی رزق کے لئے کسی قسم کا کام دھندا نہیں کرتا   وہ صرف   بزرگوں ، علماء اکرام ، سیاسی لیڈروں  ، روایات یا سند   میں غلطیاں نکالتا ہے  ۔

ناظرین اگر کسی بھی چیز کے اجزاء قرآن وحدیث میں موجود ہوں تو اس چیز  غلط ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا   ۔ مثال کے طور پر  رس گلہ  مٹھائی  اسلام کے ابتدائی دور میں موجود نہ تھی  لیکن آج ہر فرد رس گلہ  مٹھائی  کو حلال بھی مانتا ہے اور کھاتا بھی ہے جبکہ رس گلہ  مٹھائی  کا نہ تو براہ راست قرآن میں تذکرہ ہے اور نہ ہی حدیث میں   ایساء کیوں  ؟
یہ اس لئے کی رس گلہ مٹھائی میں موجود تمام اجزاء حدیث مبارکہ کے مطابق حلال ہیں  ۔
اس لئے اب دعائے نادعلی کے مفہوم کو حدیث مبارکہ میں چیک کریں کہ اس دعا مبارکہ کا مفہوم حدیث مبارکہ سے ثابت ہے یا نہیں   ۔
اب نادعلی کے اجزاء کیا ہیں  ؟ 
1) ۔  مدد کے لئے  علی پکارنا 
2) ۔  علی کا ذکر کرنا عبادت 
  دعائے نادعلی کے یہ دو اہم اجزاء ہیں   ۔
اس  کی ڈیٹیل  میں جانے سے پہلے آپ پر واضح کر دوں کہ   مدد کے لئے پکارنے ،  مانگنے اور معبود  ٹھہرانے میں فرق ہے اور اس فرق کو بھی انشاء اللہ آپ پر واضح کرنے کی کوشش کریں  گے   ۔


کیا  اللہ کے سواءکسی سے مانگنا  اسے معبود ٹھہرانے کے مترادف ہے  ؟ 

  کسی اگر آپ نے ضرورت کے مطابق قرض مانگ لیا  تو کیا یہ شرک ہے ؟
کسی پیاسے نے  آپ سے پانی مانگ لیا  تو کیا یہ شرک ہے  ؟
آپ نے  کسی زخمی کی مدد کر کے اسے ہسپتال پہچا دیا تو کیا یہ شرک ہو  گیا  ؟
ناظرین کوئی بھی فرد اگر کسی بھی فرد کی مدد کرتا ہے تو یہ مدد اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے  کیونکہ اللہ نے آپ کی مدد کے لئے براہ راست تو آنا نہیں  صرف وسیلہ پیدا فرمانا  ہے اور جو فرد بھی آپ کی مدد کرتا ہے وہی اللہ کا پیدا کردہ آپ کے لئے وسیلہ ہے ۔  لیکن وسیلہ حاصل کرنے کے لئے بھی آپ کو کوشش کرنے پڑئے گی   ۔
اور یہ کوشش کیا ہے  ؟
یہی کہ آپ کسی کو مدد کے لئے کہیں   ،
 اور یہاں اللہ کی مدد کیا ہے  ؟
 کہ وہ اس فرد کے دل میں رحم ڈال دئے گا اور وہ آپ کے سوال کو پورہ کرنے کے لئے ہمت شروع کر دئے گا   ۔

اس کا حدیث سے حوالہ  :
حی الاولیاء جلد  8 صفحہ 297 
کنزالاعمال جلد 6 صفحہ 85 
حدیث : نعمتیں طلب کرو فقیر مسلمان  سے  کیونکہ یہ انکی دولت ہے قیامت کے دن کے لئے   
اس حدیث مبارکہ میں  فقیر مسلمان سے نعمتیں مانگنے کا حکم دیا گیا ہے  ۔
اب بتائیں کہ کیا مولا علی سے بڑئے کوئی فقیر   ( علم کے بادشادہ  ،  سوچنے والا ) ولی اللہ  کوئی ہو سکتا  ہے  ۔ 

حدیث   : 
طبرانی ، موجبا الکبیر   صفحہ 117 ، جلد  18 
کنزالاعمال ، مجموعہ زوائل
 ترجمعہ : جب تم سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے  اور اسکو مدد کی  ضرورت ہو  اور وہ کسی ایسی  جگہ پر ہو  جہاں اسکا کوئی مدد گار نہ  ہو  تو وہاں وہ پکارئے
 ائے اللہ کے بندوں میری مدد کروں  
 ائے اللہ کے بندوں میری مدد کروں  
 ائے اللہ کے بندوں میری مدد کروں  
تو وہاں اللہ کے ایسے بندئے ہوں گے جہیں یہ نہیں دیکھ سکتا  مگر وہ اسے دیکھ  رہیں ہوں گے  وہ اسکی گمشدہ  چیز تلاش کرنے میں مدد  ضرور کریں  گے  ۔
راوی  صحابی رسول عتبیٰ بن غزوان 
اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وسلم  نے اللہ کی  اس مخلوق  سے مدد  مانگنے کا حکم فرمایا ہے جو کہ دیکھائی نہیں دیتی   ۔   ( گو کہ مدد اللہ ہی نے کسی نہ کسی وسیلہ کے زریعے کرنی ہوتی ہے  )
اب  یہاں غور کریں  کہ فرشتے یا کوئی بھی غیبی مخلوق انسان کا درجہ حاصل نہیں کر سکے  ۔
اسی طرح لاکھوں انسان مل کر اللہ کے ولی کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے  
اسی طرح دنیا بھر کے ولی مل کر ایک صحابی رسول کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے  
جبکہ تمام صحابہ سے افضل صحابی  جناب مولاعلی کی ذات مبارک ہیں اور کوئی بھی مسلمان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا  ۔
حدیث مبارکہ میں غیبی مخلوق  سے  مدد مانگنے کا حکم موجود ہے   جو کہ  صحابہ اکرام ، اولیاء اللہ اور انسان سے درجے میں بے حد کم ہیں   تو کیا علی علیہ سے مدد مانگنا غلط ہے جو کہ ان تمام  سے افضل ہیں  ۔ 
اس حدیث مبارکہ  میں ضرورت کے مطابق مدد    مانگنے  کی تاکید فرمائی گئی ہے   تو   پھر   بھلا یہ شرک یا معبود ٹھہرانے کے زمرئے میں کیسے آ سکتا ہے   ۔
تو  ثابت ہوا کہ نادعلی پڑھ کر مولا علی علیہ سلام  سے مدد طلب کرنے  سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ کوئی فرد  جناب مولا علی علیہ سلام  کو معبود  ٹھہرا رہا ہے    ، یعنی معبود ٹھہرانے یا مدد مانگنے میں فرق ہے   ۔

تیسری حدیث   
مجموعہ الذوائد  جلد 10 صفحہ 132 
موجباالکبیر صفحہ  167 
کنزالاعمال  جلد  6     صفحہ    705 
جامع الصغیر   جلد 1   صفحہ   37
حضرت عبداللہ بن  مسعود نے فرمایا کہ اگر  کوئی آدمی کہیں جا رہا ہو اور اسکا جانور بگڑ گیا ہو  اور وہ اسکے قبضے میں نہ آرہا ہو   تو وہ کہے    
ائے اللہ کے بندوں اسے روک لو 
ائے اللہ کے بندوں اسے روک لو 
ائے اللہ کے بندوں اسے روک لو 
تو پر اللہ کے ایسے بندے ہوں گے جو اس سواری کو روک لیں گے  ۔

اب اس حدیث مبارکہ پر غور کرلیں کہ غیب مخلوق  سے بگڑئے جانور کو روکنے کے لئے مدد مانگنے کی تاکید کی جارہی  ہے  یہ غیب مخلوق شہداء کی ارواح بھی ہو سکتی ہیں  ،  مسلمان جنات بھی ہو سکتے ہیں اور  فرشتے بھی ہوں سکتے ہیں   تو کیا  جس مسلمان نےسواری کو  قابو میں کرنے کے اللہ کے بندوں سے مدد مانگی  تو اس سے شرک کیا  ؟ 

چوتھی حدیث  
کنزل الاعمال صفحہ نمبر  1680  ۔ راوی حضرت ابو سعید خدری 
ترجمعہ  : اپنی حاجات کو میرئے رحم  دل امتیوں سے طلب کرو   
یہاں غور کریں کہ کیا جناب علی علیہ سلام   رحم دل نہیں  ؟

 پانچویں حدیث  :  راوی مولا علی
میرے رحم دل امتیوں سے بڑائی مانگوں ان کی پناۃ میں چیں پاو گے   

 چٹھی حدیث  : راوی  حضرت عبداللہ ابن عباس 
بھلائی اس سے مانگوں جسکا  چہرہ خوبصورت  ہے  

ساتویں حدیث  : میزان الاعتدال میں حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں  کہ    حدیث  نہیں ملی


اسی طرح کسی کو پکارنا    بھی غلط نہیں   
جیسا کہ اللہ نے قران میں  یا ایھاالمزمل  ، یا ایہاالمدثر ، یا ایہا الذین امنو کہہ کر سرکار کو اور ایمان والو کو پکارہ 
اسی طرح سرکار نے بھی    یاایہا الکافروں  کہہ کر  کفار کو پکارہ  
اسی طرح نادعلی میں اگر کوئی فرد جناب علی علیہ سلام کو وسیلہ کے طور پر پکارتا ہے تو اس  کا مطلب یہ نہیں  کہ اس سے سرکار  کو معبود ٹھہرا دیا   ۔
مطلب پکارنے اور معبود ٹھہرانے میں فرق ہے   ۔اسی طرح مدد مانگنے اور معبود ٹھہرانے میں بھی فرق ہے  ۔
دعائے نادعلی میں علی کو پکارہ بھی جاتا ہے اور سرکار سے بطور وسیلہ مدد بھی طلب کی جاتی ہے  جسکا مطلب یہ  ہر گز نہیں کہ کسی نے سرکار کو معبود ٹھہرا دیا  ۔
ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ  کسی کو پکارنا  اور کسی سے مدد مانگنا  شرک نہیں بلکہ معبود ٹھہرانا شرک ہے  اور نادعلی پڑھکر کوئی جناب مولاعلی  علیہ سلام کو معبود نہیں ٹھہراتا  ۔



4) ۔ظہور نادعلی  

ظہور نادعلی کی صحیح سمجھ اور شعور اسی فرد کو حاصل ہو سکتا ہے   جسے غزوہ خیبر   کے پورئے واقع اور مقصدیت کی سمجھ  ہے  ۔
لہذا یہ واقعہ مختصر بیان کرتے ہوئے  بیان کرتے ہوئے ہم  دعائے نادعلی کا ظہور اور اسکی   مقصدیت آپ پر واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں   ۔

غزوہ خیبر  اور ظہور نادعلی 

 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  جب مکہ سے مدینہ  ہجرت فرمائی تو لوگ  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیرت واخلاق سے  اور نورانی چہرے سے متاثر ہو کر  بڑی سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے   . یہ بات کفار کو پسند نہ آئی  لہذا انہوں نے مسلمانوں 
ظلم وستم کی انتہاء کر دی  ۔
کفار کے مسلمانوں پر ظلم ہونے کے تمام پلان  قلعہ خیبر میں  طے پاتے تھے  اور  قلعہ خیبر کو ہی کفار کا ہیڈ آفس مانا جاتا تھا  ۔
خیبر مدینہ سے   171 کلو میٹر دور   شمال کی طرف واقع  ہے   ۔ 
جب کفار کے  مسلمانوں پر  ظلم وستم حد سے  بڑھ گئے تو اس وقت   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مسلمانوں سے کہا کہ آو  خیبر والوں کی اصلاح کرنے کے لئے چلیں  اور حضور بنی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم  پر  تمام مسلمانوں نے لبیک کیا   ۔
لہذا   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے 1565 مسلمانوں  کے ہمراہ   قلعہ خیبر   کی طرف  روانہ  ہو گئے   ۔
ان  1565 مسلمانوں میں 200 سوار اور  باقی پیدل تھے  ۔
 جناب مولا علی شیر خدا  اس وقت  آشوب چشم ( آنکھوں میں زخم ) میں مبتلاء تھے  لہذا  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ جناب مولا علی شیر خدا کو مدینہ میں ہی رکنے کا حکم فرمایا  ۔
لیکن بعض روایات کے مطابق  آپ   خیبر کی طرف    1565 مسلمانوں  کے ہمراہ   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  ہی روانہ ہوئے تھے   لیکن  آشوب چشم ( آنکھوں میں زخم ) میں مبتلاء کی وجہ سے آپ کو سپاہیوں کی خدمت کرنے کی زمہ داری دی گئی تھی  ۔
  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے دور مبارک میں  ہر صحابی رسول کی یہ خواہش تھی کہ وہ نیکی اور بہادری  میں  سبقت حاصل کرئے  ۔ لہذا  غزوہ خیبر میں شامل تمام صحابہ کی بھی  یہی خواہش تھی  کہ وہ بہادری اور جرات دیکھانے میں باقی صحابہ سے سبقت لے جائیں  ۔
جن میں چند صحابہ اکرام  کے دل میں یہ بھی تھا کہ چونکہ اس جنگ میں  جناب علی علیہ سلام شامل نہیں لہذا اس دفعہ وہ اپنی بہادری اور جرات دیکھانے میں جناب مولاعلی شیر خدا سے سبقت لے جائیں  گے   ۔
یہاں یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ صحابہ اکرام کا  جناب مولا علی شیر خدا سے   نیکی میں سبقت  لے جانے کی خواہش سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ صحابہ اکرام  جناب مولاعلی شیر خدا   کے خلاف ہیں  بلکہ ہر صحابی رسول کو یہ معلوم تھا کہ   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   جناب مولا علی شیر خدا سے محبت فرماتے ہیں  ۔اورحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جس سے محبت فرمائیں اسکی تعظیم کرنا صحابہ اکرام اور تمام  مسلمانوں  کے ایمان کا حصہ ہے  ۔
 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے خیبر پہچنے سے پہلے ہی  چند منافقین  نے   خیبر کے مکینوں کوسرکار کے خیبر پہچنے کی اطلاع   دے دی   ۔ لہذا لشکر اسلام  کو قلعہ خیبر کے سامنے دیکھ کر کفار مسلمانوں پر زور زور سے ہنسنے لگے  ۔
قلعہ خیبر میں موجو د کافروں نے   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو للکارتے ہوئے کہا  
کہ ائے محمد    صلی اللہ علیہ وسلم   کیا آپ ان مٹھی بھر مسلمانوں   کے ہمراہ خیبر فتح کرو گے ؟
کیاآپ مرحب کی تلوار سے واقف نہیں  ؟
اس پر حضور   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حق پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اس  دعوت حق کو  انہوں نے ٹھکرا دیا   ۔
تو اس پر   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا   اے مشرقین جان لو کہ ہم تمہیں یہ قلعہ  40 دن میں فتح کر کے دیکھائیں گے ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ بات سن کر  مشرقین ہنسنے لگے   جبکہ    1565  صحابی رسول  پرامید ہوگئے کہ اللہ کے رسول نے   40 دنوں میں مسلمانوں کو فتح کی خوش خبری عطاء فرما دی ہے  ۔
لہذا مسلمان  خیبر سے  کچھ دور  خیمے لگا کر بیٹھ گئے   ۔
اب خیبر کے مکینوں نے فیصلہ کیا  کہ مسلمانوں کے خیموں پر حملہ کر  کے انہیں ختم کردیا جائے   ۔
جبکہ مرحب نے یہ کہہ کر  مشرقین کو منع کردیا  کہ  40 دنوں میں مسلمان  چونکہ بھوک ، پیاس اور گرمی کی شدت سے خود ہی   ختم ہو جائیں گے لہذا ہمیں مسلمانوں کے بنی کو  ( نعوذبااللہ   ) چھوٹا    کہنے کا بہت بڑا ثبوت اور جواز مل جائے گا   ۔
لہذا  39 دن مسلمانوں نے   بھوک ، پیاس ، گرمی ، بیماری اور وباء کا سامنا بھی کیا اور  قلعہ خیبر کا دروازہ توڑنے کی بھی کوشش کی  ۔
جس میں مسلمانوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا  ۔
اور اسی دوران مسلمانوں میں مایوسی کی لہر بھی دوڑ گئی   ۔
انتالیسویں دن مسلمان حضور نبی اکرم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ کیا ہم شکست قبول کرلیں  ۔
آپ نے فرمایا نہیں ۔
یہ کہہ کر آپ اپنے خیمے میں تشریف لے گئے   ۔
لہذا  اسی وقت  جبرائیل آپ کے سامنے نادعلی لے کر پیش ہوئے   ۔ جس کے الفاظ یہ ہیں  ۔

بعض بزرگوں کے مطابق یہ آواز سرکار کو غیب سے سنائی دی تھی لہذا   انتالسویں دن مغرب کی نماز کے بعد  آپ نے صحابہ اکرام سے فرمایا  کہ
 کل میں عَلم  اسکے ہاتھ دوں گا  جسکے ہاتھ اللہ نے فتح  لکھی ہے اور وہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرنے والا ہے اور اللہ اور اسکے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں  ۔
جب صبح ہوئی تو    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی کہاں ہیں  ۔
علی کا نام سنتے ہی تمام صحابہ کے چہرئے  خوشی سے چمکنے لگے   اور صحابہ اکرام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ  علی جلد ہی آپ کی بارگاہ میں موجود ہوں گے ۔
اللہ اور اسکے رسول کے شیر مولاعلی  نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  بارگاہ میں  آشوب چشم کے مرض میں مبتلاء ہونے کے باوجود حاضر ہو کر  عرض کی   کہ حکم صادر فرمائیں  ۔
تو اس  وقت آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی  زبان مبارک سے اپنی شہادت کی انگلی کو مس کر کے جناب مولا علی کی آنکھوں میں لگائی اور اسی وقت جناب مولاعلی شیر خدا  کو آشوب چشم سے شفاء حاصل ہو گئی  ۔
اور جناب مولاعلی شیر خدا کے فرمان کے مطابق   جب  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مولاعلی کے آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا تو سرکار کی آنکھیں اتنی زیادہ روش ہو گئی کہ سرکار کو زمین ہر ہر طے میں چھے ہوئے خزانے بھی نظر آنے لگے  ۔
لہذا   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مولاعلی سے فرمایا کہ  ائے علی  یہ عَلم لو اور خیبر کا قلعہ فتح کر لو   ۔
مولا علی نے  کہا  لبیک یا رسول اللہ   ۔
جسے ہی علی نے    لبیک یا رسول اللہ   کہا  تو صحابہ اکرام  کے ایمان میں بجلی جیسا جوش آ گیا  اور وہ اللہ اکبر اور لبیک یا رسول اللہ کے نعرئے لگانے لگے  اور ان نعروں کی گونج ایسی تھی کہ آسمان پر ہلچل مچ گئی  ۔
صحابہ اکرام کو  یقین تھا کہ علی اللہ  کے وہ شیر ہیں جو نبی کے حکم سے  سورچ ، چاند اور ستاروں کو پاش پاش کر سکتے ہیں  اس مرحب کی کیا عقات  ہے  ۔
لہذا اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں مولاعلی علیہ اسلام قلعہ خیبر کے دروازئے پر پہنچے  اور کلمہ حق پڑھا  ۔
جسے سن کر مشرقین ہنسنے لگے  ۔
مشرقین نے جناب مولا علی شیر خدا کو للکارتے ہوئے کیا کہ آپ سے پہلے بھی بہت سے لوگ آئے  اور ناکام ہو کر چلے گئے  لہذا اگر سلامتی چاہتے ہو تو آپ بھی لوٹ جاو  ۔
اتنے میں آپ سرکار  کے ہاتھ میں  جو عَلم تھا اس علم میں جو لکڑی کا دستہ تھا  اس دستے کو آپ نے پتھر پر مارہ اور وہ لکڑی کا کمزور 
دستہ اس پتھر کے اندر دھنس گیا   ۔
یہ منظر دیکھ کر مرحب اور قلعہ کے سبھی مکیں حیرت میں پڑھ گئے  کہ یہ کیسے ممکن ہے  ۔
لیکن قلعہ کے نجومیوں نے کہا  کہ لگتا ہے کہ یہ کوئی ہم سے بھی بڑا نجومی ہے کیونکہ اسے یہ پتہ ہے کہ زمین کے پتھر کب اور کتنی دیر کے لئے موم جیسی حالت میں آتے ہیں  ۔ 
خیبر کے نجومیوں میں یہ بات چل ہی رہی تھی کہ  سرکار نے دوبارہ سے علم  کے  دستے کو اٹھایا اور پتھر میں گارڈ دیا اور اسی طرح مسلسل آپ نے اس عمل کو دہرایا   ۔
خیبر کے نجومیوں نے آسمان کی طرف دیکھا پھر سرکار کی طرف دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے  اور کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے  ۔
مرحب   قلعہ کے نجومیوں  سے  کہا کہ پتہ لگاؤ یہ کیسے ممکن ہے  ؟  
تو نجومیوں نے  مرحب کو بتایا کہ  کہ جیسے جیسے یہ نوجوان علم اٹھاتا ہے ویسے ویسے آسمان کے ستارئے اپنی جگہ چھوڑ رہیں ہیں  ۔
ایسے لگ رہا ہے  کہ یہ نوجوان ستاروں کے مطابق نہیں چل رہا بلکہ ستارے اس نوجوان کے اشارئے پر چل رہیں ہیں  ۔
اتنے میں مرحب کا بھائی حارث غصے سے آگ بھگولا ہوتے ہوئے قلعے سے بارہ آیا   ۔
حارث نے سرکار کو للکارتے ہوئے کہا  کہ ائے نوجوان میں حارث ہوں اور اگر تم بھاگنا چاہتے ہو تو بھاگ جاو  ۔
تو جناب علی علیہ سلام نے فرمایا   ۔
اے حارث نہ ہم بھاگنے آئیں ہیں اور نہ  ہی کسی کو قتل کرنے آئیں ہیں  ۔
ہم تو صرف تمہاری اصلاح کرنے کے لئے آئیں ہیں  ۔
اتنے میں حارث نے   جناب علی علیہ سلام پر وار کیا  لیکن سرکار نے حق کی دعوت جاری رکھی  ۔
اور جب حارث نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو سرکار سے صرف ایک ہی وار سے حارث کو  2 ٹکڑوں  میں تقسیم کر دیا  ۔ 
یہ منظر جب مرحب نے دیکھا تو  غصے سے لال پیلا ہو کر اپنی تلوار کے ہمراہ قلعہ سے باہر کر   بھوکھلاہٹ کے عالم میں   جناب علی علیہ سلام کو للکارتے ہوئے کہا کہ میرا نام مرحب ہے اور مجھ سے موت بھی ڈرتی ہے  ۔
تو اس پر  جناب مولاعلی علیہ اسلام نے فرمایا کہ  میرا نام حیدر رکھا ہے  ۔
حیدر نام سنتے ہی مرحب کو ایک جھٹکا لگا اور اسی وقت سوچ میں پڑھ گیا اور اس دوران مرحب کو اپنی ماں  وہ باتیں یاد آئیں جو مرحب کی ماں اسے اسکے بچپن سے جوانی تک سناتی رہی  ۔
مرحب کی والدہ اصل میں ایک نجومی تھی اور اس نے مرحب کو یہ بنایا تھا کہ تمہاری موت جس کے ہاتھوں آئے گی اسکا نام  حیدر ہو گا  ۔  لہذا حیدر سے دور رہنا  ۔
 مرحب نے اپنے اس خیال کو جھٹک دیا  ۔
 اور اسی وقت اس نے   جناب مولاعلی علیہ سلام پر وار  کر دیا   مگر  جناب مولاعلی علیہ سلام  نے  اسکے وار کو روکتے ہوئے  مرحب کے لئے حق کی دعوت کو جاری رکھا  ۔
مرحب نے پھر وار کیا اور  جناب مولاعلی علیہ سلام نے پھر وار کو روکا   ۔
اور اسی طرح  جب مرحب نے  جناب مولاعلی علیہ سلام پر تیسرا وار کیا  تو اس وقت  سرکار نے اپنی تلوار سے  مرحب پر وار  کیا  
کفار یہ سمجھے کہ  جناب مولاعلی علیہ سلام کا وار خطاء چلا گیا  اور وہ ہنسنے لگے   ۔
لیکن  کفار کی ہنسی یہ دیکھ کر بند ہو گئی کہ مرحب سر سے پاوں تک 2 حصوں میں بٹ کر   جناب مولا علی علیہ سلام کی تلوار کے دائیں اور بائیں گر چکا ہے  ۔
(تلوار کے اس وار کوضرب حیدری کے نام سے یاد کیا جاتا  ہے  )
کفار کے حواس اس ناممکن منظر کو دیکھ کر باختہ ہو گئے  ۔
اور وہ اپنے قلعے کا دروازہ بند کرنے کی طرف دوڑئے  ۔ 
ناظرین خیبر کے اس قلعے کے دروازے کو  100 افراد کھولتے اور بند کرتے تھے   ۔اور بعض روایات کے مطابق اس قلعے کے دروازے کو  40 اونٹ اور 40 ہاتھی مل کر بند کرتے تھے   ۔
لیکن اللہ کے شیر نے یہ دروازہ اپنے دونوں ہاتھوں سے  بند ہونے سے روکا  اور جو  لوگ  لوہے کی زنجیروں اور ہاتھوں سے اس دروازے کو بند کرنے کی کوشش کر رہے  تھے وہ ایک ہی جھٹکے میں اس دروازئے سے دور جا گرئے  ۔
اللہ کے شیر نےقلعہ خیبر کا دروازہ  اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھایا اور تمام مسلمانوں کو قلعہ کے اندر جانے کا  حکم دیا  ۔
لہذا تمام مسلمان  قلعہ کے اندر داخل ہو گئے   ۔
لیکن جسے ہی     حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھورے کی ہمراہ اس دروازے سے گزرنے لگے تو جناب علی کے ہاتھ کاپنے لگے  تو اس پر صحابہ سے عرض کی کہ  اے اللہ کے شیر ابھی سینکڑوں لوگ اس دروازئے سے گزرے مگر آپ کے ہاتھ نہ  کانپا لیکن جیسے ہی اللہ کے رسول اس دروازئے سے گزرئے آپ کے ہاتھ کاپنے لگے ایساء کیوں ؟
تو جناب علی علیہ سلام  نے فرمایا  امامت نبوت کا وزن نہیں اٹھا سکتی  ۔
ناظرین نادعلی کے ظہور کے بارئے میں  مختلف روایات  پرانی کتابوں میں ملتی ہیں   ۔ ان پرانی کتب میں  معارج النبوہ   جو کہ  ملاح معین کاشفی   نے تحریر فرمائی  کتاب مدارج النبوہ  جو کہ عبدالحق محدث دہلوی  نے تحریر فرمائی  ان دونوں بزرگوں کے مطابق دعائے نادعلی   کا ظہور  غزوہ احد میں ہوا   ۔
کتاب  اسرار نادعلی   جو کہ عبدالعلی مروی محدث  نے تحریر فرمائی  
روضہ الاحباب  جو کہ  حافظ جمال الدین محدث شیرازی نے تحریر فرمائی   ان دونوں بزرگوں کے مطابق دعائے نادعلی کا ظہور  غزوہ خیبر کے  انتالیسواں دن گزرنے کے بعد ہوا جسکی ڈیٹیل ہم نے پہلے آپ کو بتادی ہے  ۔ 
اسی طرح بعض بزرگ  کے مطابق یہ دعا  غزوہ  تبوک میں نازل ہوئی   ۔
 ذیا دہ تر بزرگ تو اسی بات پر مطفق ہیں   کی نادعلی شریف کا ظہور  غزوہ خیبر کے مقام پر ہوا   ۔


5) ۔ نبی کا علی سے  مدد  طلب کرنا کیسا ہے  ؟

مدد 2 قسم کی ہوتی ہے ایک مدد "  حکم مدد " ہے اور اس مدد  کوصرف بڑا چھوٹے سے حاصل کر سکتا ہے  ۔
دوسری قسم کی مدد   " التجائے مدد  " وہ مدد ہے  یہ مدد چھوٹا اپنے بڑئے سے حاصل کرتا  ہے  ۔
اب چونکہ دعائے نادعلی شریف پڑھ کر  چونکہ جناب علی علیہ سلام سے مدد حاصل کی جاتی ہے  اس لئے  بہت سے افراد دعائے نادعلی شریف کو اس لئے رد کرتے ہیں  کہ بھلا بنی  علی سے کیوںکر  مدد طلب کریں  جبکہ  نبی کا رتبہ علی سے زیادہ ہے   ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بنی جس انسان سے بھی مدد طلب کریں وہ حکم کے زمرئے میں آتی ہے  اور اس مدد کو   "  حکم مدد " کہا جاتا ہے   ۔
اسکی مثال یہ ہے کہ  آپ نے اپنی اولاد میں سے کسی سے کہا کہ وہ گندم کی بوری اٹھانے میں آپ کی مدد کرئے  تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی اولاد آپ سے بڑی ہے   ۔
اولاد جتنی مرضی بڑی ہو جائے وہ اپنے والدین سے چھوٹی ہی رہتی ہے   ۔
مطلب یہ کہ والدین کا اولاد سے مدد طلب کرنا 'حکم مدد "   ہے   ۔
اسی غزوہ خندق میں   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا    علی سے مدد طلب کرنا    'حکم مدد "  ہے   ۔
یعنی سرکار نے علی کو خیبر فتح کرنے کا حکم  دیا  اور اس حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے   جناب مولاعلی  شیر خدا نے خیبر کو فتح بھی کیا   ۔
ایک اور چھوٹا سوال یہاں یہ بھی اخذ ہوتا ہے   کہ کیا غزوہ خندق میں  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے چونکہ جناب علی علیہ سلام سے مدد طلب فرمائی   ، کیا  یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی ذات  کے لئے  تھی  ؟ جواب  کا آپ کو بہتر اندزہ ہوگا   ۔

التجاء مدد  

 " التجائے مدد  "یہ مدد چھوٹا اپنے بڑئے سے حاصل کرتا  ہے  ۔
مثال کے طور پر  آپ  کو اپنی مشکلات زندگی سے کوشش کے باوجود نجات نہیں مل رہی تو ان مشکلات سے نجات کے لئے آپ اپنے والدین یا گھر کے کسی بھی بزرگ سے  ضرور مدد حاصل کرتے ہوں گے ۔
یہ مدد   التجائے مدد کہلاتی ہے جس میں چھوٹا اپنے بڑئے سے عاجزانہ انداز میں مدد حاصل کرتا  ہے  ۔
الغرض بنی کا نادعلی پڑھنا  " حکم مدد    "ہے   کیوں کہ نبیؑ علی سے  بڑئے  ہیں  ۔
اور ہمارا نادعلی پڑھنا    "  التجائے مدد "  ہے  کہ ہم  جناب مولاعلی  علیہ سلام سے   بہت چھوٹے  ہیں   ۔


6) ۔ کیا مولاعلی پکار سنتے ہیں   ؟

حوالہ : امام محمد بن عبداللہ نیشاپوری  ، کتاب  :المستدرک با ا لحاکم
ایک دفعہ سرکار کوفہ کی ایک مسجد میں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ   تشریف فرما تھے  تو اچانک آپ جناب علی  علیہ سلام  نے کہا  و علیکم اسلام   ، تو   جناب علی  علیہ سلام  کے  یہ الفاظ سن کر اہل  محفل پر یشان ہو گئے اور عرض کی کہ سرکار آپ کو تو   محفل میں کسی  نے سلام نہیں  کیا اور نہ ہی محفل میں کوئی اور فرد آیا ہے تو آپ نے  و علیکم اسلام   کسے کہا  ۔
تو آپ سرکار  نے فرمایا کہ جنت میں حضرت جعفر طیار  نے مجھے سلام  کیا  اور میں نے ان ہی کے سلام کا جواب دیا  ۔
اب یہاں  غور کریں  جو ہستی جنت سے اپنے چاہنے والوں کی آواز سن سکتی ہو  تو کیا آپ کی یا ہماری آواز سننا یا التجاء سننا اس ہستی کے لئے مشکل ہو سکتا ہے  .

 کتاب المستدک باالحاکم  میں موجود حدیث مبارکہ بخاری اور مسلم شریف کی شرائط پر پورہ اترتی ہیں   
امام محمد بن عبداللہ نیشاپوری  انہیں حاکم نیشاپوری بھی کیا جاتا ہے  دین کی اصلاح میں میں حاکم اس ہستی کو کہتے ہیں  جسے حضور بنی اکرم کا ہر فرمان ، ہر قول اور ہر عمل یاد ہو   ۔
یا رہے کہ   جس ہستی کو  ایک لاکھ حدیث یاد ہوں اسے حافظ الحدیث کہتے ہیں  
جسے 3 لاکھ حدیثیں یاد ہوں انہیں  انہیں حجۃالاسلام کہتے ہیں  اور یہ رتبہ  امام غزالی کو حاصل تھا  اور جسے بنی کا ہر قول اور ہر حکم یاد ہو اسے حاکم کہتے ہیں   اور محمد بن عبداللہ نیشاپوری ایک حاکم تھے  اور اوپر بیان کیا گیا واقع انہوں نے اپنی کتاب المستدرک باالحاکم میں بیان فرمایا ہے  ۔

7) ۔  خیبر کے مقام پر دعائے نادعلی پڑھنے کے پیچھے  سرکار کی مقصدیت   ؟

جنگ سے بڑی مشکل  کوئی ہو ہی نہیں سکتی  اور جنگ خیبر مسلمانوں کے لئے مشکلات کا پہاڑ تھی   ۔ اور جب اس مشکل سے نجات  کا کوئی راستہ باقی نہ رہا  تو اس  وقت   سرکار نے دعائے نادعلی پڑھی یعنی جناب علی علیہ سلام کو   اسلام کے لئے حکم مدد جاری فرمایا   ۔
لہذا  جناب علی علیہ سلام کی مدد سے مسلمانوں کی ناکامی کو اللہ نے کامیابی میں بدل دیا ۔
اب یہاں غور طلب بات یہ ہے  کہ مسلمانوں کے پاس  ٹوٹل 40 دن تھے  اور مسلمانوں نے  39 دنوں تک   اس جنگ کو علی کے بغیر جیتے کی کوشش کی  ۔
چالیسویں دن علی آئے  اور  صرف ایک دن میں  آپ نے اللہ کے حکم سے خیبر کو فتح کر لیا   ۔
مطلب یہ کہ    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں پر واضح کردیا کہ  علی کے بغیر مشکل کی آسانی نہیں   ، یہ مشکل میدان جنگ کی ہو   ، مقدر ہو  یا زندگی   کی   ۔
اب  یہاں سوال یہ پیدا ہو رہا ہے  کہ  خیبر کےمقام پر  دعائے نادعلی  پڑھنے کی پیچھے سرکار کی کیا حکمت عملی تھی   ؟
دعائے نادعلی شریف کا تو سرکار  کو جبرائیل  کے مقام خیبر پر نازل ہونے سے پہلے کا علم تھا  ۔
جبرائیل  نے تو آپ سرکار کوصرف اللہ کا یہ پیغام دیا تھا  کہ  اب دعائے نادعلی شریف کو امت کے لئے عام فرما دیں   ۔
 دعائے نادعلی شریف کو امت کے لئے عام فرمانے کے  پیچھے سرکار کی کیا حکمت عملی تھی   ؟
تو اسکا مقصد یہ تھا کہ ایک وقت ایساء بھی آنا تھا جب  جناب مولا علی شیر خدا ظاہری حوالے سے اس دنیا سے  پردہ فرما لیں گے تو اس  وقت  مسلمان جناب علی  علیہ سلام کی مدد کیسے حاصل کرپائیں گے  ۔
لہذا اسی  بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مصلحت کے تحت   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   مسلمانوں کو دعائے نادعلی بتائی   تاکہ شہادت  جناب علی علیہ سلام  کے بعد   مسلمان  یہ نہ سمجھیں کہ اب علی کسی کی مدد نہیں کر سکتے  ۔
یعنی سرکار نے  نادعلی کی صورت میں  جناب علی علیہ سلام کی باطنی مدد حاصل کرنے  کا  مسلمانوں کو بہت بڑا سیکرٹ بتا دیا  ۔
اب کوئی بھی مسلمان  دل سے دعائے نادعلی بغیر شرط کے  پڑھ کر دیکھ لے  انشاء اللہ علی کی مدد آپ تک ضرور پہچے گی  ۔
حدیث : سرکار نے فرمایا کہ علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے  تو اس پر ایک صحابی رسول نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ایک وقت ایساء بھی ہو گا جب علی اس دنیا سے پردہ فرما لیں گے تو تب یہ عبادت کس طرح ہو  گی تو سرکار نے فرمایا کی علی کا  نام لینا عبادت  ہے 
حوالہ حدیث   :
تو دعائے نادعلی میں بھی تو علی ہی کا نام  مبارک ہے  

 جناب علی علیہ سلام کی مدد کےمستحق کون  ؟

ناظرین جناب علی  علیہ سلام  کو اللہ نے  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم    کے وسیلہ سے بے شمار اختیارات سے نواز رکھا ہے   لیکن اسکے باوجود آپ نے  انتہائی غربت کی حالت میں  کھیتوں میں حل چلا کر   اور مشقت والے کام کر کے  اللہ کی بارگاہ سے رزق حلال حاصل کیا  ۔
اب  اگرکوئی  فرد  گھر میں بیٹھا رہے اور  رزق حلال کی تلاش  نہ کرئے   تو کیا ایسے فرد   کوسرکار پسند فرمائیں  گے  ؟ ہر گز نہیں  ۔
 جناب علی علیہ سلام نے اسلام اور اپنی مشکلات کو اللہ کے کرم سے اپنی جرات و بہادری سے ٹالا   ۔
اب اگر کوئی سرکار کو ماننے والا   اپنی مشکلات پر دل برداشتہ ہو کر بیٹھ جائے اور فرار کا را ستہ اختیار کرنے کی سوچے تو    جناب علی علیہ سلام کو ایسے افراد بھی پسند نہیں  ۔
ناظرین کوئی فرد    جناب علی علیہ سلام کو مرشد مانتا ہے  ، کوئی پیر مانتا ہے  ، کوئی آقا مانتا ہے اور کوئی مالک مانتا ہے  اور کوئی اپنا باپ ماتنا ہے اور سب سے افضل بات یہی ہے کہ سرکار کو اپنا باپ مانا جائے  ۔
کیوں کہ  لوگ پیر ، آقا یا مالکوں کے منکر ہو جاتے ہیں  باپ کا منکر کوئی بھی نہیں ہوتا  ۔
اب کوئی سرکار کو اپنا باپ مانے یا نہ مانے سرکار اپنے چاہنے والوں کو اپنی اولاد  ہی مانتے ہیں  گو کہ امام حسن ، حسین اور ان ہستوں کی اولاد جیساء رتبہ کوئی بھی نہیں حاصل کر سکتا  ۔
لیکن اس کے باوجود سرکار   کے چاہنے والے سرکار کی ہی اولاد  ہیں  ۔
اب  یہاں  غور کریں کہ جب اولاد نشہ کی عادی ہو جائے  تو باپ کے دل پر کیا گزرے گی  ۔
یاد رہے     کہ جناب علی علیہ سلام  آپ کو آپ کے باپ سے بھی  ذیادہ محبت کرتے ہیں   تو  ان کے دل پر کیا گزرئے گی
مطلب یہ کہ سرکار کو نشہ پسند نہیں   ، تو نشہ کرنے والے یا نشہ کروانے والے کیسے پسند ہو سکتے ہیں  ۔
اور یاد رکھیں جب کوئی بھی فرد نشہ کرتا ہے تو وہ سرکار کو دکھی کرتا  ہے   ۔
 جناب علی علیہ سلام   کو دکھی کرنے والا اگر ان سے محبت کا دعویٰ کرئے   تو یہ اپنے آپ کو دھوکا دینے والی  بات  ہے
  الغرض
جو افراد والدین کے گستاخ ہیں
رزق حلال کی تلاش نہ کرتے ہوں  ۔
بیویوں پر تشدد کرتے  ہیں
اولاد کی صحیح تعلیم و تربیعت  کا خیال نہیں رکھتے
جوا کھیلتے ہیں 
دوسروں کی بہن ، بیٹی یا بہو کو بری  نظر سے دیکھتے ہیں
 تو ایسے افراد سرکار کو پسند نہیں  لہذا ایسے افراد سرکار کی مدد کے مستحق بھی نہیں   ۔
یعنی ایسے افراد نادعلی پڑھیں یا نہ  پڑھیں وہ سرکار کے کرم سے محروم ہی  رہتے ہیں   ۔
اومید ہے کہ آپ پر یہ بات واضح ہو چکی ہے  کہ    جناب علی علیہ سلام  کی مدد  کے اصل حق دار  وہ ہیں  جنہیں سرکار  پسند فرماتے ہیں  اور سرکار جنہیں پسند فرماتے ہیں ان کی نشانیا ں ہم نے آپ پر واضح کردی ہیں ۔

 9) ۔ جناب علی علیہ سلام مدد کس طرح کرتے ہیں  ؟

جناب علی علیہ سلام کے پاس اختیار ہے کہ  وہ کسی بھی فرد کی مدد سامنے آکر بھی کر سکتے ہیں اور غیب رہ کر بھی کر سکتے 
لیکن 1000 میں سے 999 افراد کی مدد غیب سے ہی کی جاتی ہے اور جن افراد کے سامنے آکر سرکار کی ذات مدد  فرماتے ہیں  وہ اولیاء میں ہوتے ہیں   ۔
جہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ   جناب علی علیہ سلام غیب سے کس طرح مدد فرماتے ہیں   ۔
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ  جناب علی علیہ سلام کی مدد  آپ کی ہمت کو ملتی ہے  
یعنی جناب علی علیہ سلام کی مدد صرف ان افراد کو حاصل ہوتی ہے جنکا مقصد جائز ہو اور وہ اپنے نیک مقصد کو حاصل کرنے کے لئے  اپنی جان توڑ محنت اور مشقت کرتے ہیں  ۔
یعنی  اگر آپ  کو لگ رہا ہے کہ آپ  بے حد ہمت اور کوشش کے باوجود کامیاب  ہوں  گے تو اس وقت  نادعلی پڑھنے سے  آپ کو  مزید ہمت کی صورت میں سرکار کی مدد حاصل ہو گی   ۔
جسکی وجہ سے آپ کا ناممکن کام  جناب علی علیہ سلام کی مدد سے انشاء اللہ ممکن ہو جائے گا   ۔ 
اسکی مثال ایسے ہے کہ  
ایک مزدور   سخت تھکاوٹ کی حالت میں اگر دیوار بنا رہا ہے  مگر سخت  محنت   کے باوجود اسے لگ  رہا ہو کہ وہ دیوار نہیں بنا پائے گا اور اس دوران اس مزدور کی ہمت بھی جواب دے رہی ہو  تو ایسی صورت میں اگر وہ نادعلی پڑھتا ہے تو اسے اسی وقت جناب علی علیہ سلام کی مدد ہمت کی صورت میں حاصل ہو جائے گی جسکی  وجہ سے وہ مزدور دیوار بنانے میں جلد کامیاب ہو جائے گا   ۔
یعنی جناب علی علیہ سلام  کی مدد آپ کی ہمت کو حاصل ہو گی بشرطیکہ آپ اسکا استعمال کر رہیں ہوں   ۔
اس   جگہ اگر کوئی یہ کہے  کہ وہ  دیوار کے سامنے  پر سکون ہو کر بیٹھ  جائے اور نادعلی پڑھتا رہے  تاکہ  دیوار خود بخود بن جائے   تو ایسے افراد کو جناب علی علیہ سلام کی مدد حاصل نہ ہوگی  اور نہ ہی ایسے افراد  سرکار کو پسند ہیں  ۔
اسی طرح اگر سخت بیمار  اور بے اولاد افراد   قابل ڈاکٹر کی ادویات استعمال نہ کریں  اور سرکار کی مدد کے انتظار میں بیٹھ جائیں   تو یہ بات بھی سرکار کو  پسند نہیں  ۔
اصول یہ ہے کہ آپ سرکار سے مدد طلب کرنے کے بعد   قابل ڈاکٹر سے اپنا علاج بھی کروائیں  ۔
اس طرح کرنے سے سرکار   کی مدد کے طفیل  ڈاکٹر کی ادویات آپ کے لئے باعث شفاء  بنے گیں ۔
 اسی اصول کے تحت  طالب علم  ، سرکاری ملازم  ، کاروباری افراد   ، گھریلو پریشانیوں میں مبتلاء افراد  اور بیماروں کو  جناب علی علیہ سلام کی مدد حاصل ہوتی ہے  ۔